یہ قصور کس کا تھا؟

خیبرپختونخوا کے ایک چھوٹے سے قصبے سے تعلق رکھنے والا رحیم پانچ بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا، وہ گزشتہ ہفتے پندرہ سال کا ہوچکا تھا۔ رحیم کی عمر صرف ایک سال تھی کہ اس کی والدہ دنیا سے رخصت ہوگئی جبکہ اسکے والد بھی چند ماہ بعد وفات پاگئے تھے۔ رحیم کے ساتھ اپنی ماں کی آخری نشانی ان کا ایک دوپٹہ تھا جوکہ اکثر پریشانی اور سخت حالات میں اس کے غم بانٹنے کا ساتھی تھا۔ والدین کے وفات کے بعد رحیم کی پرورش اس کے بھائیوں کی ذمہ داری تھی تاہم شادیوں کے بعد وہ رحیم کو اتنا وقت نہ دے سکیں۔ بھائیوں کی لاپرواہی کی وجہ سے رحیم محض تیسری جماعت تک ہی تعلیم حاصل کرچکا تھا۔ بھابھیوں کی خدمت اور بھانجوں کی سکول لے جانا اور واپس لانا رحیم کی اہم ذمہ داریوں میں سے کچھ تھے اس کے علاوہ گھر کے دوسرے کام اور بعض اوقات صفائی بھی رحیم ہی کی ڈیوٹی ہوتی تھی۔ کسی بھی کام میں کوتاہی یا پھر تاخیر کی صورت میں رحیم کو ڈانٹ اور یاپھر مار بھی پڑتی تھی۔

غربت کی وجہ سے کبھی کبھار کھانا بھی نہ ملتا۔ رحیم کی زندگی کسی غلام سے کم نہ تھی۔ نہ کوئی گلہ فریاد سننے والا اور نہ ہی کوئی دلاسہ دینے والا۔ غم سے نڈال رحیم کا غم بھلانے کا واحد طریقہ ماں کا دوپٹہ تھا جس کو گلے لگاکر رحیم کو چند لمحوں کے لئے سکون مل جاتا تھا۔ رحیم اکثر تنہائی میں خوب روتا اور سوچتا کہ کاش اس کا بھی کوئی غم خوار ہوتا۔ صبح ہوتی، شام اور پھر رات ہوجاتی۔ رحیم اسی قرب سے گزرتا۔
ایک دن کسی چھوٹی سی بات پر رحیم کی بڑی بھابھی اس کی کافی پٹائی کرلیتی ہے۔ بڑے بھائی کو شکایت کرنے پر بھائی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے الٹا اسی کو ہی ڈانٹ دیتے ہیں۔ رحیم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا ہے۔ اس دن آخرکار وہ فیصلہ کرہی لیتا ہے کہ رحیم کو اب اس گھر میں مزید نہیں رہنا۔ رحیم اپنی ماں کی آخری نشانی اور چند ضروری سامان اٹھاکر کسی کو بتائے بغیر گھر سے نکل جاتا ہے۔

رحیم اپنے منزل سے ناواقف ہے۔ پریشانی کے عالم میں بس اڈے سے گاڑی میں سوار ہوتا ہے۔ کنڈیکٹر کے پوچھنے پر رحیم آخری سٹیشن کا بولتا ہے لیکن کرایہ مانگنے پر رحیم لاجواب ہوجاتا ہے اور مجبورا بس کینڈیکٹر رحیم کو گالی گلوچ کے بعد تاریکی میں نامعلوم سنسان راستے پر، بس سے اتار دیتا ہے اور یوں پریشانی کے ساتھ گھبراہت بھی رحیم پر طاری ہوجاتی ہے۔ رحیم کو کچھ سمجھ نہیں آتی کہ اب وہ کس سمت جائے؟ رات ہورہی ہوتی ہے۔ اندھیرے کے ڈر سے رحیم سڑک کے کنارے کھڑا رہتا ہے۔ رحیم کی آنکھوں سے آنسوں رواں ہوتے ہیں۔ شدید گھبراہٹ کی وجہ سے وہ آسمان کی جانب دیکھتا ہے اور زوروقطار رونا شروع کردیتا ہے۔ اللہ سے فریاد کرتا ہے۔ زندگی سے نالاں رحیم کو کچھ سمجھ نہیں آرہی ہوتی۔ رحیم کے ذہن میں رشتہ داروں کے ظلم اور ڈانٹ ڈپٹ چل رہی ہوتی ہے۔ بھوک و پیاس کی وجہ سے رحیم کا جسم کمزرو ہوتا جاتا ہے کہ آخر کار سڑک پر گرجاتا ہے۔ رحیم کی ہمت جواب دے چکی ہوتی ہے۔ بے بسی کی عالم میں رحیم سڑک پر اردگرد نظر دوڑاتا ہے۔ رحیم کے کانوں میں کتوں کی بھونکنے کی آوازیں آرہی ہوتی ہے جوکہ آہستہ آہستہ قریب تر ہوجاتی ہے اسی اثنا کہ رحیم کی آنکھیں بند ہوجاتی ہیں

اس کو سڑک پر روشنی دکھائی دیتی ہے جوکہ تیزی سے اس کی طرف آرہی ہے۔ کچھ ہی لحمہ بعد گاڑی ہے بریک کے ساتھ ایک انسانی چیخ فضا میں گونجتی ہے۔ تھوڑی دیر خاموشی چھا جاتی ہے۔ قدموں کی آواز کے بعد ایک بھاری آواز کا مالک شحص دوسرے بندے کو کہتا ہے کہ ’’گاڑی سٹارٹ کرو، لگتا ہے کوئی نشئی یا پاگل آدمی تھا۔‘‘ دوسرا شحص پاس پڑا رحیم کی ماں کا دوپٹہ اس کے چہرے پر ڈالتے ہوئے جواب دیتا ہے کہ ’’شکرہے ٹرک کے نیچے آکر مر گیا ویسے بھی یہ خود پر اور اس دنیا پھر بوجھ تھا۔‘‘
دونوں آدمی ٹرک میں بیٹھتے ہیں اور خاموشی سے نکل جاتے ہیں۔ رحیم کی کچلی ہوئی لاش سڑک پر پڑی ہوتی ہے اور صبح تک جانے کتنی گاڑیاں اس پر گزرچکی ہوتی ہے۔ صبح اس بچارے کی لاش کچھ خدا ترس مقامی لوگ، لاوارث جان کردفنا تو دیتے ہیں لیکن اس رات کی وہ تاریکی اور اردگرد کے نباتات اب تک یہ سوال کررہے ہیں کہ یہ قصور کس کا تھا؟

Written by 

صوابی سے تعلق رکھنے والی بلاگر اور کم عمر کالم نگار رمشا یوسفزئی آگاہی وی لاگ کے ساتھ بطور بلاگر وابسطہ ہے، دسویں جماعت کی طالبہ کو کم عمر ہی سے لکھائی اور معاشرتی مسائل کو اجاگر کرنے کا شوق تھا۔ مصنفہ تعلیم کے ساتھ ساتھ فارع اوقات میں مختلف پلیٹ فارم سے مضامین لکھ چکی ہے۔