قبول ہے کی قید


بظاہر تو شادی/نکاح لڑکے اور لڑکی کی رضامندی کا نام ہے، جہاں دو عاقل بالغ مخالف صنف کے درمیاں فیصلے اتفاق اور باہمی رضامندی سے کئے جاتے ہیں۔ لیکن دراصل یہ فیصلے اتفاق پر مبنی نہیں ہوتے اس میں اکثر لڑکا لڑکی کی مرضی کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
نکاح خواہشات، جذبات، احساسات اور بہت سی مثبت چیزوں کا مجموعہ ہے لیکن ہمارے معاشرے میں شادی کا بندھن اپنے پیچھے دو انسانوں کے بہت سے جذبات احساسات اور خواہشات کا گلا گھونٹ دینے کا نام ہے۔
خاص طور پر وہ نکاح کے تین بول "قبول ہے” صرف ایک رشتہ کو جائز کرنے کیلئے نہیں بولے جاتے، اس میں ایک لمبی اور نہ ختم ہونے والی "قبول ہے” کی فہرست ہوتی ہے جو ایک عورت مرتے دم تک تسبیح کی طرح بولتی ہے اور اس "قبول ہے” کی تسبیح کا مقصد اپنی ازدواجی زندگی کو برقرار رکھنا ہوتاہے اور جو عورت اس کی لاج نہ رکھ پائے اس پر خراب تربیت، بدکرداری، بدچلنی، نافرمانی اور سرکشی کا لیبل لگادیاجاتاہے۔
یہاں رشتہ برقرار رکھنے سے مراد بیوی کاشوہر کے ہر جائز ناجائز حکم کو قبول کرنا کے ساتھ شوہر سے جڑے ہر رشتے کا حکم سر جھکا کے ماننے اور اپنے ارمان اور خواہشات کا گلا خود گھوٹنے کا نام ہے، اس کو کامیاب زندگی کا راز کہا جاتاہے۔ مرد کا عورت کو اپنی زندگی اورگھر میں جگہ دینے کی قیمت یہ ہے کہ اس کی پوری زندگی ایک قیدی یا ذرخرید غلام کی ہوجاتی ہے۔
چاہے آپ پوری رات تکلیف میں رہی ہو اور آپ کی نیند پوری نہ ہوئی ہو پر صبح اٹھنا اور ناشتہ تیار کرنا، کپڑے دھونا، صفائی، برتن، کھانا بنانا ان سب کے لئے عورت کو اپنا آرام نیند، نوکری، میکہ سب کی قربانی دینی ہوتی ہے۔ اور آپ کو ہمیشہ یہ درس دیا جاتا ہے کہ اپنا رشتہ قائم کرنے لئے کمپرومائز کرو۔ کیا اتنا کمزور ہوتا ہے یہ رشتہ جو صرف نوکرانی بن ہ بچایا جاسکتا ہے؟
اسلام میں تو عورت کو گھر کے کام کرنے کا حکم نہیں دیا، بیوی دراصل مرد کے گھر اور عزت کی نگہبان ہے، یہاں تک کہ اسلام نے مرد کو اس بات کا بھی حکم دیا ہے کہ اپنے بچے کے دودھ کا انتظام کروائے، اور اگر وہ اپنی ماں کا دودگ پی رہا ہو تو ماں کو اس کی اجرت دی جائے کیونکہ بیوی کی زمہ دارویوں میں یہ چیزیں نہیں آتی۔
اگر کوئی عورت تمھارے گھر کے کام کررہی ہے تو وہ اپنے شوہر اور اس کے گھر والوں پر احسان کر رہی ہے، احسان کا مطلب یہ نہیں کہ چھوٹی غلطی پر عورت کا جینا حرام کردیا جاتا ہے۔
یہاں تو سکول، کالج، یونیورسٹی کے پڑھے لکھے لڑکے تک اس بات کی دلیلیں دیتے ہیں کہ سمجھوتا کرنا لڑکیوں کا کام ہے اور اس کمپرومائز میں ہر وہ جائز و ناجائز چیز کا ماننا ہے جس سے رشتے کو بچایا جاسکے۔
ہمارے معاشرے کے اصول مرد پر لاگو نہیں ہوتے سوائے اس کے کہ وہ اسے کما کر لانا ہے۔ باقی سارے کام بیویوں پر فرض کردیئے گئے ہیں جبکہ نکما اور بے روزگار مرد ہونا بھی اتنی بری بات نہیں جتنی عورت کی ہانڈی میں نمک زیادہ یا کم بری بات ہے۔
شادی کی رات شوہر اپنی ساری ذمہ داریاں اپنی بیوی کے کندھے پر رکھ دیتاہے کہ آج کے بعد میرے امی ابو کا خیال رکھنا اب تمہاری ذمہ داری ہے میرے بہن بھائیوں کی عزت کرنا اب تمہارافرض ہے اور میرے گھر میں سکون بنائے رکھنا اور میرا خیال رکھنا بھی تمہارا اولین فرض ہے مطلب ماتھے سے پسینہ صاف کرکے ہاتھ بیوی کے دوپٹے سے صاف کرلئے جاتے ہیں اور ایک جملہ آخر میں بیویوں کے زیر نظر کہ ”تم آج سے میری ذمہ داری ہو تمہارے ہر خوشی اور خواہش کاخیال رکھوں گا اور تمہارے ماں باپ کی اپنے ماں باپ کی طرح خیال رکھونگا“۔
چلیں یہ الفاظ میں آپ پر چھوڑتی ہوں کہ کس حد تک مرد اس کا خیال رکھتاہے کس حد تک وہ بیوی کے ماں باپ کا عزت کرتاہے آج کل تو ٹرینڈ یہ ہے کہ پہلی رات بیویوں سے اس کا پہلاحق یعنی حق مہر ہی معاف کروادیا جائے یہ سب باتیں تو اب عام ہونے لگی ہے کہ لوگ اپنے فرائض سے ہاتھ دھوکراپنی حقوق کی فہرست کو اور بھی لمبا کئے جاتے ہیں۔
نکاح کا خوبصورت رشتہ دونوں طرف سے باہمی رضامندی کا ہے اس رشتہ میں ایک طرف کاجھکاؤ اور دوسری طرف کی اکڑ نہیں بلکہ دونوں طرف سے جھکاؤ ہونا ضروری ہوتاہے اور یہی کامیاب ازدواجی زندگی کی نشانی ہے ایک دوسرے پر ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالنا یہ انڈرسٹینڈنگ نہیں ہے جب دونوں طرف سے عزت، اہمیت، پیار اور وقت برابر ملے تو ذمہ داریوں کی فہرست بتانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی بلکہ ایک دوسرے کی خوشی کیلئے یہ سب رشتے نبھانے کا خود ہی دل چاہتاہے۔
گھر میں سکون بنانے کیلئے صرف عورت ذمہ دار نہیں ہوتی مرد کا بھی بڑا کردار ہوتا ہے پر لوگ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مرد بھی کیا بیوی کی بات مان سکتا ہے یا اس کی خواہش پوری کرسکتا ہے، زن مریدی کا ٹیگ لگانے میں یہ لوگ سب سے آگے ہوتے ہیں اور جب کچھ اچھا یا برا ہوجائے تو پوچھتے تک نہیں یا مدد کیلئے آگے نہیں ہوتے کہ پرائے گھر کا معاملہ ہے۔
نکاح جیسے خوبصورت رشتے کو لوگوں کی نظر نہ ہونے دیا جائےاس کی اہمیت کو سمجھ کر پرائی بیٹی کو پیار اور اچھے اخلاق سے اپنے حساب سے ڈھالا جائے تاکہ ایک دن میں اس پر سب پہاڑتوڑ کر خود کو یہ کہنے سے آزاد کردیاجائے مرد اور عورت دونوں کو گھر کا ماحول بہتر بنانے کیلئے ساتھ چلنا چاہیئے کسی ایک پر بوجھ ڈالنا بالکل بھی خوشگوار ازدواجی زندگی کیلئے مناسب نہیں۔

Written by 

سماجی کارکن اور فری لانس صحافی سائرہ مفتی نے پشاور یونیورسٹی سے صحافت اور تعلقات عامہ میں ماسٹر کیا ہوا ہے، وہ ماضی میں پختونخوا ریڈیو کے ساتھ منسلک رہی ہیں اس کے علاوہ بین القوامی اداروں کے ساتھ خواتین کے مسائل پر بھی کام کر چکی ہیں۔ سائرہ مفتی آگاہی وی لاگ کے لئے بلاگز لکھنے کے علاوہ ایڈیٹوریل خدمات بھی انجام دیتی ہیں۔ وہ میڈیا مانیٹرنگ اور ریسرچ کا وسیع تجربہ بھی رکھتی ہیں۔