ابھی تک جتنی بھی حکومتیں آئیں وزارتیں آئیں، کبھی کسی سے پاکستان سنبھالا نہیں گیا، لوگ اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتے رہے لیکن افاقہ نہیں ہوا جو بھی حکمران آئے انہوں نے اپنی طرف سے حکومت چلانے کی بہت کوشش کی پر ہمیشہ ناکام رہے، کیونکہ ہر بندے نے اپنی سوچ کے حساب اپنی الگ پارٹی بنا رکھی ہے، سیاست کر کے ملک کو کھلونا بنا کر کھیلا گیا، اور ہر نئے آنے والی حکومت کو گرانے کے لئے حربے آزمائے گئے، حکمرانوں کا کام تھا پاکستان میں حکومت کرنا، کیونکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ پاکستان میں حکومت کی جاسکتی ہے مگر تبدیلی نہیں لائی جاسکتی، اس لیے ہر پانچ سال بعد حکومت تبدیل ہوتی ہے پر پاکستان تبدیل نہیں ہوتا، کیونکہ اصل مسئلہ کچھ اور ہے۔
مسئلہ حکومت یا حکمرانوں کا نہیں مسئلہ اس قوم کا ہے، اس قوم کی سوچ کا ہے اس قوم کے رہن سہن کا ہے، مسئلہ پاکستان کا نہیں مسئلہ پاکستانیوں کا ہے، کسی کی مجال نہیں کہ باہر سے آکر پاکستان کو نقصان پہنچا سکے یہ کام تو پاکستانیوں کا ہے، ہم خود ہی پاکستان کے دشمن بنے ہوئے ہیں، کوئی ہمارا تب تک کچھ نہیں بگاڑ سکتا جب تک ہم کسی کو موقع نہ دیں، ہنسی تو اس بات پر آتی ہے کہ ملک کے حالات کہاں جا رہے ہیں اور یہ قوم سوشل میڈیا پر بیٹھ کر دوسرے ملکوں کو، دوسرے مذاہب کو اور طبقوں کو بددعائیں دے رہی ہے، گالیاں دے رہی ہے، اور کہتے ہیں کہ اگر تم پاکستانی ہو اور مسلمان ہو تو آمین لکھ کر کمنٹ کرو، مطلب اس طرح ہم اپنے دشمنوں سے بچ جائیں گے اس طرح آئے گی پاکستان میں تبدیلی، اور اس طرح کرے گا یہ ملک ترقی؟
مطلب ابھی بھی ہماری قوم کو لگتا ہے کہ ان بد دعاؤں سے، ان گالیوں سے، سوشل میڈیا میں پاکستان کو سپورٹ کرنے سے، امریکا انڈیا کے لوگوں کو گالیاں دینے سے، دوسری سیاسی پارٹی کے حکمرانوں کو برا بھلا کہنے سے پاکستان میں تبدیلی آئی وہ بھی مثبت تبدیلی؟ سب سے پہلے تو ہماری اپنی قوم کو 21 توپوں کی سلامی دی جائے جو ابھی بھی ان باتوں پر یقین کر کے ان چھوٹی چھوٹی چیزوں سے دلی خوشی حاصل کر رہی ہیں۔
پاکستان اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک پاکستانی اپنی سوچ نہیں بدلیں گے، حکمران آئیں گے جائینگے لیکن تب تک کچھ نہیں بدلے گا جب تک ہم پاکستانیوں کی سوچ تبدیل نہیں ہوگی۔ پاکستانی قوم نے ابھی تک ایک ہی چیز میں ترقی کی ہے وہ ہے ماڈرنزم وہ بھی صرف نام کی۔ لوگوں نے بڑی بڑی عمارتیں بنا رکھی ہیں لیکن اپنے علاقے اور اپنی گلی کی صفائی کی حالت نہیں بدل سکے۔
ہم بھلے ہی ہر دن نیا برانڈڈ سوٹ خریدیں لیکن ہمیں نہیں پتہ کہ گھر محلے کو صاف کیسے رکھنا ہے، ہم بھلے ہی بڑی بڑی گاڑیوں میں سڑکوں پر گھومتے پھریں پر ہمیں نہیں معلوم کہ ٹریفک سگنلز کو کیسے فالو کرنا ہے، ہم سب تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود یہ نہیں جانتے کہ گاڑیوں میں بیٹھ کر گاڑیوں سے سڑک پر گند گرانا اخلاقیات کے خلاف ہے۔
ہم بھلے ہی ڈاکٹر اور انجینئر یا کوئی سائنسدان ہی کیوں نہ بن جائیں ہمیں یہ نہیں پتہ کہ ہمیں گھر کے ملازمین سے بات کس طرح کرنی ہے، ہمیں یہ نہیں پتہ کہ جو پیسہ ہم دن رات محنت کرکے کماتے ہیں وہ کہاں پر خرچ کرنے ہیں، ہم یہ جانتے بوجھتے کہ ریسٹورنٹس، ہوٹلز اور بیکری میں کھانے کی اور کچن کی صفائی کا خیال نہیں رکھا جاتا، پر پھر بھی ہم دو دنوں بعد باہر جا کر کھانا کھانے کیلئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں، کیونکہ اس سے ہمارے ہاں سٹینڈرڈ اور کلاس کا پتہ لگتا ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ کہاں پہ فضول خرچی ہے اور کہاں پر دکھاوا، پر زیادہ پیسے خرچ کرنے کو ہم فراخدلی کہتے ہیں۔.
اسی بات سے اندازہ لگا لیں کہ آج کل کرونا وائرس کی وبا پھیلی ہوئی ہے اور سب کو پتہ ہے کہ لاک ڈاؤن کس وجہ سے کیا گیا ہے، بچہ بچہ اس بات سے واقف ہے، پر جیسے ہی لاک ڈاؤن میں نرمی ہوئی، اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ وباء ابھی باقی ہے روزبروز کیسز بڑھتے جا رہے ہیں، کتنے ہی لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، لوگوں سے فاصلہ رکھنا کتنا ہی ضروری ہوگیا ہے لیکن لوگ گھروں سے نکلے اور بازاروں میں نکل پڑے، سوشل میڈیا ان کی تصویروں اور ویڈیو سے بھرا پڑا ہے کہ لوگ کس قدر ہجوم میں بازاروں میں سے گزر رہے ہیں اور کپڑے جوتے لینے کے لئے قطاریں لگی ہوئی ہیں اور اس میں ایک انچ کا بھی فاصلہ نہیں ہے۔
لوگ اس قدر بے صبرے ہیں کہ جیسے آج کے بعد دکانوں میں سامان آنا ہی نہیں ہے، عورتیں بھی مردوں سے پیچھے نہیں رہیں اور خریداری کرنے نکل آئیں، دوکاندار بھی یہ دیکھ کر حیران ہیں اور خوش بھی کیونکہ انہوں نے اپنی دکانوں میں اس قدر رش کبھی دیکھی ہی نہیں تھی، لاک ڈاون کے علاوہ بھی اگر ہم حالات دیکھیں اس ملک کے تو پچھلے کچھ دنوں میں ایسے ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں کہ انسان کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، ایک چچا نے اپنے گھر کی بچی کو صرف شور مچانے پر گولی مارکر قتل کر ڈالا، بھائی نے شربت میں چینی زیادہ ہونے پر اپنی بہن کو قتل کر دیا، ایک بیٹے نے گھریلو جھگڑے میں اپنے باپ ماں اور بہن بھائیوں کو کمرے میں بند کر کے آگ لگا دی، ایک بھائی نے افطاری میں شربت کے معاملے پر اپنے دوسرے بھائی کو سوتے ہوئے کلہاڑی کے پے درپے وار کرکے قتل کیا، پولیس نے ملزم کو برہنہ کر کے سوشل میڈیا پر ویڈیو عام کردی۔
اس طرح کے اور بھی کئی واقعات سامنے آئے ہیں کہ انسانی سوچ ان واقعات کو ماننے کو تیار نہیں، چاہے اپر کلاس کے لوگ ہو یا مڈل کلاس کے، ان پڑھ ہو یا تعلیم یافتہ، امیر ہو یا غریب لوگوں کا رہن سہن کھانا پینا اٹھنا بیٹھنا چلنا پھرنا سب بدل سکتا ہے، لیکن اس قوم کی سوچ نہیں بدل سکتی، پاکستان ابھی بھی ترقی پذیر ممالک میں شمار ہوتا ہے، اور یہ اس وجہ سے نہیں کہ ہمارے ملک کی حکومت یا حکمران کرپٹ ہے، یہ اس لیے ہے کہ ہماری قوم ترقی کرنا ہی نہیں چاہتی نہ اپنی سوچ بدلنا چاہتی ہیں، کوئی اپنی انا نہیں چھوڑ رہا تو کوئی ناامیدی میں ڈوبا ہوا ہے۔
ہر فرقے نے اپنی الگ مسجد اپنی سوچ بنا رکھی ہے، ہر انسان اپنا صحیح غلط خود طے کر بیٹھا ہے، اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا کر اپنی اس صحیح غلط سوچ کے حساب سے مذہب کی تعلیمات دے رہے ہیں، اس ملک کو نئے حکمران نئی پارٹی کی ضرورت نہیں ہے اس قوم کو نئی سوچ، نئی عقل وفکر، نئی طرز فکر کی ضرورت ہے۔
پاکستانی قوم جب خود کو نہیں بدلے گی پاکستان نا تو ترقی یافتہ ہو سکتا ہے ،اور نہ ہی لوگ تعلیم یافتہ، یہ بات کہنا غلط نہ ہوگی کہ ہمارے ملک میں تعلیم یافتہ کوئی بھی نہیں، کیونکہ تعلیم آپ کو شعور دیتی ہے آپ کی سوچ اور فکر میں مثبت تبدیلی لے کر آتی ہے، پر نہایت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے تعلیم کا معیار بھی صحیح نہیں ہے اور اس میں حکومت کی غلطی نہیں ہے نہ حکمران کی، کیونکہ ان اداروں میں لوگ بیٹھے ہیں انسان بیٹھے ہیں جو خود کو تعلیم یافتہ کہتے ہیں لیکن جب ان کو سرکاری نوکریاں ملتی ہیں تو وہ اپنی تعلیم کو بھلا بیٹھتے ہیں، کیونکہ یہ بات تو آپ جانتے ہیں کہ جس کو بھی سرکاری نوکری ملے تو لوگ کہتے ہیں کہ اب تم آرام سے بیٹھ کر کھا سکتے ہو، حالانکہ جب آپ کو سرکاری نوکری ملتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے ہاتھ میں ملک کو تبدیل کرنے کی ذمہ داری آ گئی ہے۔
اگر آپ سرکاری سکول میں ٹیچر کی نوکری پر بھرتی ہوتے ہو تو آپ کی یہ ذمہ داری ہے کہ آپ پاکستان کی سرکاری اسکول کی تعلیم کو بہتر بناؤ، اگر آپ کو سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر بھرتی کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اپنے کمرے میں آرام سے بیٹھ کر مریضوں کو ذلیل و خوار کرو بلکہ آپ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ آپ ہر غریب اور امیر کا یکساں طور پر علاج کرو اور ان میں فرق نہ کرو، اگر قانون کی نوکری کرنے کے بعد آپ سرکاری طور پر عدالت میں جج یا وکیل بھرتی ہوتے ہو تو آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ غریب امیر دونوں کے بیچ میں انصاف رکھو۔
جب بھی کسی انسان کو نوکری پر رکھا جاتا ہے تو نوکری کا سب سے پہلا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ وہاں کے ماحول کو اور بہتر بناؤ، ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو اپنے فرائض کو سمجھنا ہوگا، بہت ہوگیا سیاست کھلنا حکمرانوں کو برا بھلا بولنا، امیروں کو گالیاں دینا، غریبوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنا،۔
اپنی غلطیاں دوسروں کے سر تھوپنا چھوڑ دیں، خدارا اپنی غلطیوں کو سدھارنا شروع کریں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ کے ان کو پورے خلوص کے ساتھ انجام دیں، امیر اور غریب کے فرق کو چھوڑ کر انسانیت کا ساتھ دے، کیوں کہ آپ کی غیر ذمہ داری ہماری نسلوں کو تباہ کر دے گی، اس ملک کا مستقبل ھم لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔
اپنے بچوں کی اچھی تربیت کریں، انہیں رنگ نسل امیر و غریب کا فرق نہ سکھائیں، انہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلائیں ایک پاکستانی ہونے کے ناطے اور ایک مسلمان ہونے کے ناطے، ملک تب تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک اس کی قوم ترقی نہیں کرے گی، اور قوم کی ترقی سوشل میڈیا پر لوگوں کو گالیاں دینے، کوسنے، ایک دوسرے کو ذلیل کرنے، ہر چیز کو امریکہ کی سازش کہنے میں نہیں ہے، کوئی ہمارا تب تک کچھ نہیں بگاڑ سکتا جب تک ہم ان کو خود اجازت نہ دیں۔
اپنے آپ کو ایک مضبوط قوم بنائیں، اپنی سوچ میں تبدیلی لے کر آئیں، اپنے کردار کو بہتر بنائیں، اپنے بیٹے اور بیٹی دونوں کو یکساں تعلیم دلاوائیں، اپنے ملک کے غریب طبقے کی مدد کریں، ایسے اقدامات کریں جس سے آپ کا ملک ترقی کرے اور آپ کی سوچ ارتقاء کرے۔
پاکستان زندہ باد پاکستان پائندہ باد