"مردے کو دوسرے شہر منتقل کرنے کا سوچنا بھی آسان نہیں”

ہندو اور سکھ مذہب سے وابسطہ لاکھوں افراد پاکستان میں موجود ہیں، دونوں مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے پیاروں کی آخری رسومات شمشان گھاٹ میں ادا کرتے ہیں، دونوں مذاہب کے مطابق انسانی جسم 5 چیزوں کا مجموعہ ہے جسمیں آگ، پانی، مٹی، ہوا اور روح شامل ہیں اور موت کے بعد اس جسم کا ان 5 چیزوں سے ملاپ لازم ہے جسکی وجہ سے انسانی جسم کا ‘انتم سنسکار’ کرتے ہوئے اسکو جلا دیا جاتا ہے۔

ضلح کوہاٹ کے گاؤں علی زئی میں ایک شمشان گھاٹ واقع ہے جو نہ صرف کوہاٹ بلکہ ڈی۔آئی خان، بنوں اور ہنگو میں موجود ہندو اور سکھ برادری کے استعمال میں ہے، کیونکہ صوبے کے ان تمام شہروں سے میت کو یہیں آخری رسومات ادا کرنے کے لئے لایا جاتا ہے۔

گزشتہ کچھ عرصے میں مجھے اقلیتی برادری سے وابسطہ افراد کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے کا موقع ملا جہاں مجھے شمشان گھاٹ سے جڑی مشکلات کے بارے میں سننے کو ملتا تھا۔ اسلیئے ایک دن خود وہاں جا کے حالات کا جائزہ لینے کا سوچا، مزکورہ مقام تک پہنچتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ مسئلہ واقعی سنگین ہیں، جس پر کام جلد از جلد ہونا چاہیئے۔

صرف ضلع کوہاٹ کی بات کی جائے تو یہاں قریبا 15 گھرانے سکھوں کے جبکہ 150 خاندان ہندوؤں کے آباد ہیں جنکو درپیش مسائل میں یہ سب سے اہم مسئلہ ہے۔ واضح رہے کہ اس شمشان گھاٹ سے کوہاٹ کی اقلیتی برادری پھر بھی مکمل طور پر مستفید نہیں ہوسکتی ہے جبکہ گردونواح کے شہروں میں رہائش پذیر اقلیتی برادری کے لیے یہ اور بھی بڑٖا مسئلہ ہے۔ کیونکہ یہ ضلح کوہاٹ سے قریبا 25 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع علی زئی میں موجود ہے، جہاں تک پہنچنا انتہائی دشوار ہے۔ میت کو اٹھائے تنگ کانٹے دار راستوں، پانی کے بارشی تالوبوں سے گزرنا کسی امتحان سے کم نہیں ہوتا۔ ہندو برادری کے چند افراد نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں کے بزرگ انتم سنسکار میں کٹھن راستے کی وجہ سے شرکت ہی نہیں کر پاتے، انہیں مجبوراً سڑک کے اُس پار ہی ٹھہرنا پڑتا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ہمیں اندرونی تعمیر سے کوئی مسئلہ نہیں لیکن اندر تک پہنچنے کے راستے سے ضرور ہے، ہم پُر امید ہیں کہ ہمارے مسائل کو جلد حل کیا جائیگا۔

اسی سلسلے میں جب ضلح کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے دیپک سنگھ سے بات کی جو کہ ڈی آئی خان میں بطور فارماسسٹ اپنی خدمات گزشتہ دو سالوں سے سر انجام دے رہے ہیں۔ اقلیتی برادری کے مسائل کی جانب جہاں سب انکھیں بند کیئے بیٹھے ہیں وہیں دیپک سنگھ آج بھی اس جستجومیں ہیں کہ کہیں کوئی سرا ہاتھ آجائے۔

حال ہی میں دیپک کے گھر میں بھی میت ہوئی اس نے اپنی کمیونٹی کے حالات سے دلبرداشتہ ہوکر کہا کہ اگر کوہاٹ اور ڈی آئی خان کی اقلیتی برادری کا موازنہ کیا جائے تو میں یہی کہوں گا کہ "کوہاٹ والے شیر ہیں، جو اپنے حق باخوبی جانتے ہیں اور ان کے لیے آواز بھی اٹھاتے ہیں۔ جبکہ ڈی آئی خان کی اقلیتی برادری کئی طرح سے اس سلسلے میں کمزرو اس طرح سے ہیں کہ ایک تو سب سے بڑی بات یہ سب کچھ خاص پڑھے لکھے نہیں ہیں، دوسرا یہ اپنے حقوق جانتے نہیں ہیں، اور جب جانتے ہی نہیں ہیں تو آواز کس سلسلے میں اٹھایئں گے؟” یہاں ایک اور بہت بڑا مسئلہ انکی معاشی صورت الحال بھی ہے، وہ بھی اڑے آجاتی ہے۔

شمشان گھاٹ کے متعلق خصوصا بات کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ "یہ مسئلہ انتہائی سنگین ہے، ‘شوّ’ یعنی کہ مردے کو ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنے کا سوچنا بھی آسان نہیں، تو کرنا کسی بھی بڑے پڑاو سے کم نہیں ہے کیونکہ بات صرف مردے کی نہیں بلکہ اہل خانہ اور پوری برادری کا دوسرے شہر منتقل کرنے کا بندوبست کرنا اور وہ بھی پریشانی کی حالت میں ناکوں چنے چبوانا کی اعلی مثال ہے”۔

گاڑیوں کا بندوبست کرنا، آخراجات کا بوجھ اٹھانہ اور سونے پہ سہاگہ کوہاٹ کے شمشان گھاٹ تک پہنچنے کا رستہ۔ دیپک سنگھ نے مزید بتایا کہ حال ہی میں جب میرے ماموں کے انتقال پر یہ سب مسئلے دیکھتے اور سہتے میرے  تمام زخم جو میرے دادا، دادی، چچاووں اور رشتےداروں کی وفات پر لگے تھے وہ تازہ ہوگئے۔ یہ تو صرف میری کہانی ہے، اور ناجانے کتنے لوگ آئے دن اس مشکل گھڑی سے گزرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب بھی اگر ان مسائل پر نظر ڈھالی جائے تو ہم پر احسان ہوگا۔

اس سلسلے میں خیبرپختونخوا کی اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے ایم۔پی۔اے روی کمار نے بات کرتے ہوئے کہا کہ بے شک شمشان گھاٹ تک پہنچنے کا راستہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اسکو حل کرنے کے لیے ہم ڈپٹی کمشنر کوہاٹ سے بات کرینگے کیونکہ راستے کو مکمل طور پر تیار کرنے کیلئے اوزار کی خریداری درکار ہے جسمیں ابھی وقت لگے گا مگر اس سے پہلے ہماری ترجیح اندورنی تعمیر و مرمت ہوگی جسکے لیے پی۔سی ون کے تحت 50 لاکھ روپے کی منظوری جلد ہی ہوجائے گی۔ انکا مزید کہنا تھا کہ حکومت کے پہلے سال میں ہی ہم نے کوہاٹ، ڈی۔آئی خان اور بنوں کے مسائل کو سرفہرست رکھا۔

اس کے برعکس ایم-پی-اے رنجیت سنگھ کا کہنا تھا کہ جگہ ہماری ہے اور مسئلے کا سامنا بھی ہمیں اور گردونواح کے لوگوں کو کرنا پڑتا ہے۔ اندرونی تعمیر و مرمت کی اس وقت ہمیں ضرورت نہیں، میں چاہونگا کہ اس پر توجہ دینے سے پہلے راستے کا مسئلہ حل کروادیا جائے۔انکے مطابق  سالانہ طرقیاتی پروگرام میں شمشان گھاٹوں کے لیے رقم بالکل مختص تھی مگر اس میں کوہاٹ شامل نہیں تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ پہلے تو مسئلہ ہمیشہ مقامی آبادی کی جانب سے پیش آتا ہے، لوگ ہمیں جگہ دینے پر راضی نہیں ہوتے اور انکی رضامندی کے بعد ڈپٹی کمشنرز ہمارے مسائل کو نظر انداز کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ان مسائل کو دیکھ کر تاحال مجھے کوئی امید دیکھائی نہیں دے رہی، صرف وعدے اور کاغذ کی حد تک ہی باتیں ہیں۔ پاکستان کی اقلیتی برادری کو اس وطن کا برابر شریک تو سب مانتے ہیں، سبز حلالی پرچم میں ان کے لیئے مختص کیا سفید رنگ محسوس کیجیئے۔

انہیں ایسے گھٹ گھٹ کے جیتا دیکھ مجھے بابائے قوم کا وہ پاکستان یاد آتا ہے جو آزاد تھا، جو قائداعظم نے اپنے 11 اگست 1947 کے خطاب میں واضح کیا تھا کہ ‘اپکا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا عقیدے سے ہو مملکت کا اس سے کوئی سراکار نہیں’۔ اہم یہ نہیں کہ ہمارے مذہب کی بنا پر اقلیت ہیں یا اکژیت ہیں، بلکہ اہم تو یہ ہے کہ ہم سب "پاکستانی” ہیں۔ کاش ہم تمام مذاہب کا احترام کرتے، انکو سمجھتے، لوگوں کو تکلیفیں جھلتا دیکھتے اور بابائے قوم کے قول کو زہن نشین کرتے۔

میں سمجھتی ہوں کہ مسئلہ مذاہب کا ہرگز نہیں ہیں بلکہ انہیں ماننے والوں کا ہے۔ اگر ہم بطور ایک انسان خود کو دوسروں کی جگہ رکھ کے سوچنے لگیں گے تو مسئلے ضرور حل ہوجائیں گے۔

Written by 

کوہاٹ سے فری لانس جرنلسٹ اور فوٹوگرافر ہیں جو گزشتہ 4 سالوں سے صحافتی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ کوہاٹ یونیورسٹی سے صحافت کی ڈگری سونے کے تمغے کے ساتھ اپنے نام کرنے کے بعد اب نیشنل یونیورسٹی سے ایم-ایس کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ رمل اعجاز مختلف سماجی، معاشرتی، اقلیتی مسائل پر مختلف فورمز سے آواز اٹھاتی رہتی ہیں۔