قانون کی رو سے کم عمر بچوں کو جیل کی سلاخوں میں قید کرنا جرم ہے

جووئنائل جسٹس سسٹم ایکٹ 2018 پر حقیقی عمل ھو تاکہ بچے گرفتاری کے بعد کسی بھی مزید زیادتی کا شکار نہ ھو۔ عمران ٹکر

کل سے دو نو عمر بچوں کی سلاخوں کے پیچھے ایک تصویر مسلسل سوشل میڈیا، مختلف گروپس یہاں تک کہ آرپی او پولیس مردان ریجن کے ٹویٹر اکاونٹ سے بھی شئیر ھوئ ھے۔ دونوں بچوں کی منشیات بھیجتے ھوئے ایک وڈیو وائرل ھوئ جسکا نوشھرہ کے مقامی پولیس نے ایکشن لیتے ھوئے گرفتار کرلیا ہے۔
اس طرح کے بچے کسی بھی جرم میں گرفتار ھوجائے تو ان کے لئے پاکستان میں جووئنائل جسٹس سسٹم ایکٹ 2018 سے موجود ہے۔
اسی قانون کے مطابق ایک تو نو عمر بچوں کو گرفتار کرکے کسی بھی صورت پولیس حوالات میں نہیں بلکہ آبزرویشن ھوم میں رکھنا چاہئے۔ اور یہ تصویر اور آرپی او مردان پولیس کے ٹویٹ کے مطابق نو عمر بچے مقامی روایتی پولیس حوالات میں رکھے گئے ہیں جوکہ جووئنائل جسٹس سسٹم ایکٹ 2018 کی خلاف ورزی ہے۔ یاد رہے کہ آج سے دو برس پہلے پشاور کے غربی پولیس سٹیشن کے حوالات میں ایک نو عمر قیدی کو رکھا گیا تھا جہاں اس نے خودکشی کی تھی۔
اسی طرح مذکورہ قانون کے مطابق کسی بھی نوعمر قیدی کا شناخت ظاہر کرنا بھی قابل جرم ہے جس میں 3 سال کی قید اور جرمانہ ہے۔
بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے سماجی کارکن عمران ٹکر نے کہا کہ پاکستان میں قوانین تو بنائے جاتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں ھوتا ہے۔ عمران ٹکر نے کہا کہ قانون میں کہیں پر بھی نوعمر قیدیوں کو جیل یا حوالات میں رکھنا نہیں ہے۔ جبکہ آبزرویشن ھوم اور فلاحی سنٹر ہے۔ یوں 2018 سے جب جووینائل جسٹس سسٹم ایکٹ آیا ہے تو صوبہ میں کوئ ایک تھانوں کے سطح پر آبزرویشن ھوم یا قیدی بچوں کو جیل میں رکھنے کے لئے فلاحی مرکز قائم نہیں ھوا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر مختلف جرائم میں گرفتار قیدی بچوں کو تھانوں میں آبزرویشن ھوم کی بجائے عام قیدیوں کے حوالات اور جیل خانہ جات میں رکھے جاتے ہیں جوکہ نہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ بچوں کے بہترین مفاد میں بھی نہیں۔
عمران ٹکر نے کہا کہ صوبائ حکومت کی زمہ داری بنتی ہے کہ جووئنائل جسٹس سسٹم ایکٹ 2018 پر حقیقی عمل ھو تاکہ بچے گرفتاری کے بعد کسی بھی مزید زیادتی کا شکار نہ ھو اور ان کو کسی بھی ذہنی، جسمانی، جنسی زیادتی یا استحصال کا خطرہ بھی نہ ھو۔

Written by