اسلامی جمعیت طلبہ کے زیرِ اہتمام طلبہ یونین کی بحالی کے حوالے سے مباحثہ

جامعہ پشاور ایریا سٹڈی سنٹر میں اسلامی جمعیت طلبہ کے زیرِ اہتمام طلبہ یونین کی بحالی کے حوالے سے مباحثہ کا انعقاد کیا گیا۔مباحثہ میں صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف، جماعت اسلامی کے عنایت اللہ، مسلم لیگ کے اختیار ولی، پاکستان پیپلز پارٹی کے احمد کریم کنڈی، بلوچستان عوامی پارٹی کے بلاول آفریدی اور عوامی نیشنل پارٹی کے سردار حسین بابک شریک ہوئے۔سینئر صحافی لحاظ علی نے ہوسٹ کے فرائض انجام دیئے۔

اس موقع پر تمام شرکاء نے جمہوریت کی مضبوطی کے لئے طلبہ یونین کی بحالی پر زور دیا۔مباحثہ میں جامعہ پشاور کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد ادریس ، ڈاکٹر محمد شفیع، ناظم کیمپسجمعیت پشاور اسفندیار ربانی اور طلبہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔اس موقع پر ناظم اسلامی جمعیت طلبہ جامعہ پشاور تقویم الحق نے مہمانان کو پروگرام کے یادگاری شیلڈز بھی پیش کیں۔ مباحثہ کے اختتام پر طلبہ یونین کی بحالی کے لئے علامتی ریلی بھی نکالی گئی۔

پروگرام کے اختتام پر ذیل امور کے حوالے سے ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ:

(1) پاکستان کے آئین کے ارٹیکل 17کی روشنی میں یہ طلبہ کا بنیادی، آئینی اور جمہوری حق ہے کہ اُن کے جائز مطالبات کے حصول اور حقوق کے تحفظ کے لیے سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات کرائیں جائیں

(2)۔پاکستان ایک جمہوری ملک ہے پارلیمانی جمہوری نظام اس کے آئین کی اساس ہے جہاں پاکستان کا آئین اٹھارہ سال کے نوجوان کو ملکی قیادت کے چناو میں ووٹ کا حق دیتی ہے وہاں پر اِن نوجوانوں کو تعلیمی ادارے میں جمہوری عمل کے ذریعے سے اپنے لیے قیادت کے انتخاب کے حق سے محروم رکھناسوچ سے بالاتر ہے ۔

(3) پاکستان کے اندر جہاں روز اول سے مقتدر قوتوں نے جمہوریت کو کبھی پنپنے نہیں دیا وہاں پر جمہوریت کی نشوونما،جمہوری نظام کو مضبوط کرنے ،نوجوانوں بالخصوص طالب علموں کو جمہوریت کی اہمیت ، افادیت اور ضرورت کو اُجاگر کرنے اُن کو جمہوری رویوں سے ہم اہنگ کرنے اُن میں برداشت ، روادری ،اور تحمل کو مضبوط بنانے اور باہمی اختلافات کو گفت شنید کے ذریعے حل کرنے، مکالمے کی فضاء کو بہتربنانے، شدت پسندانہ اور انتہاپسندانہ رویوں کی نفی کے لیے طلبہ یونین کے انتخابات کا ہونا ضروری ہے

(4) تعلیمی دنیا کے مسائل میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے ، ایک مربوط اور بامقصد تعلیمی پالیسی کے فقدان ،فیسوں میں بے تحاشہ اضافے ، تعلیمی اداروں کی نجکاری ، معیاری تعلیم کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ طلبہ کا ایک جائزاور منتخب پلیٹ فارم موجود ہو جس کے ذریعے سے وہ ارباب اختیار تک اپنی آواز پہنچا سکے اور یہ پلیٹ فارم صرف منتخب سٹوڈنٹس یونین کا ہی ہوسکتا ہے۔

(5) طلبہ وطالبات کے لیے غیرنصابی سرگرمیوں کا انعقاد کرنے ،اُن کے اندر پوشیدہ صلاحیتوں کو اُجاگرکرنے اوراُن میں قائدانہ صلاحیتوں کے نشوونما کے لیے ضروری ہے کہ ایک ایسا پلیٹ فارم میسرہوجہاں وہ تحریرو تقریر کے ذریعے سے اپنی سیاسی سمجھ بوجھ اور شعور کو بلنداور پختہ کرسکیں۔

(6) پاکستان کے سیاست کے اندر پڑھی لکھی مڈل کلاس، نظریاتی اور فکری لیڈرشپ کی فراہمی ماضی میں بھی سٹوڈنٹس یونین کے توسط سے جاری رہی بدقسمتی سے اس پر پابندی کے نتیجے میں سیاسی جماعتیں اور سیاست سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے ہاتھوں یرغمال ہوکر فقط پیسےاور سٹیٹس کوکے حصول کاذریعہ بن گئی ہے ۔ نظریاتی اور فکری سیاست کے احیاء ، سیاست کو ایک اعلیٰ اور نظریاتی مقصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کے عمل کے احیاء کے لیے سٹوڈنٹس یونین کا انتخاب ضروری ہے۔

(7) طلبہ یونین ملکی سیاست میں نرسری کا درجہ رکھتی ہے جس کی زندہ مثال وطن عزیز پاکستان میں موجودہ قومی اور علاقائی جماعتوں میں اس وقت موجودہ کلیدی قیادت بھی طلبہ یونین کے ذریعہ آج اس مقام تک پہنچی ہے۔اس وقت ملک میں جاری سیاسی صورتحال بھی ایک لحاظ سے طلبہ یونین پرگزشتہ 38سالہ پابندیوں کا شاخسانہ ہے کیونکہ طلبہ یونین نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت ملک میں جو غیر یقینی صورتحال ہے اور سیاسی جماعتیں اپنے باہمی اختلافات کی شدت کی وجہ سے باہم مشت وگریبان ہے مستقبل میں اس کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ آج کے طالب علم کی مکالمے ،باہمی گفت شنیداور ڈایلاگ کے ذریعے سے اپنا نقطہ نظر واضح کرنے کے لیے سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات کے پلیٹ فارم کے ذریعے سے تربیت کی جاسکے

(8) تمام سیاسی جماعتوں کو پارلیمان کے اندر تمام تر سیاسی اور فکری اختلاف سے بالاترہوکر سٹوڈنٹس یونین کی بحالی کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی بنانی چاہیے۔

(9) سٹوڈنٹس یونین کو بحال کرنے کے لیے صوبائی ، قومی اسمبلیوں اور سینٹ سے متفقہ قراردیں پاس کرنی چاہیے۔

Written by