سرکاری ہسپتالوں میں ادوایات کی مفت فراہمی کے لئے حکومت سالانہ اربوں روپے خرچ کرتی ہیں لیکن خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ میں بلی ٹانگ کے عوام کا کہنا ہے کہ آرایچ سی ہسپتال کا مالی جسے چاہے سرکاری سٹور سے دوائی دے دیتا ہے اگر نہیں تو پرائیویٹ سٹور سے دوائی لینے پر مجبور ہوتا ہے۔
گورنمنٹ ہائی سکول بلی ٹانگ کے استاد عتیق الرحمان نے بتایا کہ بلی ٹانگ ہسپتال کے حوالے سے ہر کسی کا اپنا اپنا تجربہ ہے، جس کو ہسپتال سے دوائی مل جاتی ہے وہ کہتے ہیں کہ ہاں دی جاتی ہے لیکن جس کو نہیں ملتی پھر وہ شکایت کرتے ہیں کہ ہسپتال میں کسی بھی مریض کو دوائی نہیں ملتی، ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے عتیق الرحمان نے کہا کہ ایک دفعہ ڈاکٹر نے دوائی لکھنے کے بعد کہا کہ سٹور سے یہ دوائی لیں لیکن جب وہ گئے تو سٹور کیپر موقع پر موجود نہیں تھا تو مجبورا باہر کے سٹور سے لینی پڑی تو یہ بھی عین ممکن ہے کہ سٹور کیپر غیر حاضر ہو۔
دوسری جانب بلی ٹانگ آر ایچ سی ہسپتال کے سٹور کیپر مومن نے مقامی لوگوں کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ جو دوائی ڈاکٹر لکھ کر دیتا ہے اگر وہی دوائی سٹور میں موجود ہوتو مریض کو ضرور دی جاتی ہے لیکن یہ وہ لوگ الزام لگا رہے ہیں جو بغیر ڈاکٹر نسخے کے آجاتے ہیں اور کہتےہیں کہ ہمیں فلان فلاں دوائی دے دو، یا ڈاکٹر کے پرچے میں دوائی درج نہیں ہوتی اور پھر بھی مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ہمیں دوائی دے دو۔
مومن نے مزید بتایا کہ جو ہسپتال میں مالی پر الزام ہے کہ جسے وہ چاہے دوائی دیتا ہے، ایسا کہنا زیادتی ہے یہ بات درست ہے کہ اکثر سٹاف کی کمی اور کام ذیادہ ہونے کی وجہ سے کبھی کبھی ان سے بھی سٹور کی ڈیوٹی لی جاتی ہے لیکن ڈاکٹر کی ہدایت کے بغیر کسی کو وہ دوائی نہیں دے سکتا، ڈاکٹر کی طرف سے مریض کو جو پرچہ دیا جاتا ہے اسکا ریکارڈ رکھا جاتا ہے ، باقاعدہ آڈٹ ہوتا ہے۔
بلی ٹانگ سے تعلق رکھنے والا شعیب نے بتایاکہ ہسپتال میں دوائیاں ہیں کہ نہیں اسکا علم تو انکو نہیں ہے لیکن جب بھی وہ اس ہسپتال گئے ہیں کبھی بھی سرکاری سٹور سے دوائی نہیں ملی اکثر یہی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس یہ دوائی نہیں ہے آپ باہر پرائیویٹ سٹور سے لے۔
قریشی ویلفئرآرگنازیشن ادارے کے عبدالناصر جمال کے مطابق مقامی لوگوں کو شکوہ ہے کہ بلی ٹانگ ہسپتال میں میڈیسن سٹور کیپر مومن ڈیوٹی پر آتا ہی نہیں ہے، ہسپتال کا توفیق نامی مالی جسکا سیاسی اثر رسوخ بھی ہے جس کے ہاتھوں میں دوائیوں کا سٹور ہے وہ جسے چاہے دوائی دیتا ہے اگر نہیں تو ہسپتال کے باہر سٹورسے مریض دوائی لینے پر مجبور ہوتے ہیں ، 100 میں سے 10 فیصد مریضوں کو وہ اپنی مرضی سے دوائی دیتا ہے ، مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ وہ صرف اپنے جاننے والوں کو ہی دوائیاں دیتے ہیں۔
عبدالناصر جمال نے کہا کہ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہسپتال سے میڈیسن غائب ہوجاتی ہیں جو مقامی میڈیکل سٹور کو فروخت کی جاتی ہے جبکہ مریضوں کو نہیں دی جاتی۔
دوسری جانب بلی ٹانگ ہسپتال کے ڈاکٹر فیاض نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کہ انکے پاس عام دوائیاں جیسے پیناڈول، ڈسپرین،پونسٹان وغیرہ ہوتی ہیں، جن مریضوں کو ڈاکٹر یہ دوائی لکھ دیتے ہیں تو وہ انکو مل جاتی ہیں اگر ان کے علاوہ کوئی دوسری دوائی ہوتو باہر کے سٹور سے ہی خریدنی پڑتی ہیں۔
اس الزام کے جواب میں کہ سٹور کیپر تو اکثر اپنی ڈیوٹی سے غیر حاضر رہتا ہے ڈاکٹر فیاض نے کہا کہ اس میں تھوڑی بہت صداقت ہے کیونکہ سٹور کیپر کو کورونا ہوگیا تھا جس کی وجہ سے وہ ایک مہینے سے ڈیوٹی پر موجود نہیں تھا ، اور اس سے پہلے جن دنوں پولیو مہم ہوتا ہے ان دنوں انکی ڈیوٹی ہونے کی وجہ سے وہ غیر حاضر ہوتا اور سٹور بند ہوتا ہے جس کی وجہ سے اب انکو اب پولیو ڈیوٹی نہیں دی جاتی تو اب یہ مسئلہ بھی حل ہوگیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ہسپتال سے دوائیاں چوری ہوکر باہر کے سٹوروں میں فروخت ہورہی ہیں بالکل غلط ہے کیونکہ اول تو یہ کہ سرکاری دوائیوں پر سرکار کی طرف سے اپنا مہر لگایا جاتا ہے جس کو باہر فروخت نہیں کیا جاسکتا دوسری اہم بات یہ کہ ان کے ہسپتال میں عام پین کلر جیسے پیناڈول ،ڈسپرین اور پونسٹان وغیرہ کی دوائیاں ہوتی ہیں انکی اتنی قمیت نہیں کہ کوئی مہنگے داموں فروخت کریں اور یہ عام دوائیاں ہیں جو کسی بھی سٹور میں وافر مقدار موجود ہوتی ہیں۔
بجٹ کے حوالے سے ڈاکٹر فیاض خان نے کہا کہ بجٹ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن یہ ہے کہ دوائیوں کی لسٹ یہاں تیار کی جاتی ہے کہ ہسپتال کو یہ یہ دوائیاں درکار ہیں اسکو ڈی ایچ او کوہاٹ کو بھیج دیا جاتا ہے اور جو دوائیاں انکے پاس سٹور میں موجود ہوتی ہیں وہ بآسانی دی جاتی ہے۔
ضلع کوہاٹ کے محکمے صحت کے ذرائع کے مطابق ضلع بھر کے تمام صحت کے اداروں کو یہاں سے ہی انکی دی ہوئی لسٹ کے مطابق دوائیاں دی جاتی ہیں۔ بجٹ کے حوالے سے زرائع نے کہا کہ ہرسال حکومت کی جانب سے انکو بجٹ دی جاتی ہیں جو اس سال تقریبا 4 کروڑ ہے، جو صحت کےحوالے سے تمام اخراجات یعنی ہسپتالوں میں موجود چیزوں کی مرمت، ادویات ، پی او ایل ، ہنگامی صورتحال ، بجلی ، گیس سمیت ضروری سامان اور مشینری کی مرمت اور نقل و حمل وغیرہ پر خرچ کیا جاتا ہے ، ان 4 کروڑ میں تقریبا 1 کروڑ سے زائد رقم دوائیوں کے لئے مختص کی گئ ہے جو 4 اقساط میں حکومت کی جانب سے ملتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گورنمنٹ کی جانب سے انکو لسٹیں ملتی ہیں جس میں تمام دوائیوں سمیت کمپنوں کے نام درج ہوتے ہیں اور ساتھ میں ہر کمپنی کی دوائیوں کے سامنے انکے ریٹس بھی لکھی ہوتی ہیں ، پھر جو جو دوائی انکو چاہئے ہوتی ہیں متعلقہ کمپنی سے خریدی جاتی ہیں۔
بلی ٹانگ محکمہ بلدیات کے سابقہ تحصیل کونسلر اعجاز احمد نے آر ایچ سی ہسپتال میں مریضوں کو دوائی نہ ملنے کے حوالے سے کہا کہ اکثر یہاں مقامی لوگ شکایت کرتےہیں کہ انکو ڈاکٹر جو دوائی لکھ دیتے ہیں تو سرکاری سٹور سے نہیں ملتی، اسکی بڑی وجہ یہاں ہسپتال میں دوائیوں کی کمی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں کئی مرتبہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر سے ملاقات بھی ہوچکی ہیں، ملاقات کے دوران دوائیوں کی آسانی میں یقین دہانی بھی کی گئ ہے۔
سٹور سے دوائی چوری ہوکر پرائیویٹ سٹوروں میں بلیک پر فروخت ہونا الزام قرار دے کر اعجاز احمد نے کہا کہ اس بات کا ان کو کوئی بھی علم نہیں ہے، اور نا ہی انکا خیال ہے کہ اسطرح ہورہا ہے۔
سرکاری ہسپتالوں میں مفت ادوایات کِسے ملتی ہے؟
