ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس، عمران خان اور صحافت

ایک خاتون نے کسی سوشل ورکر کو بتایا کہ اس کی اپنے شوہر سے شادی کے دو برس بعد ہی علیحدگی ہو گئی تھی اور اس کے چھے بچے ہیں۔ معصوم سوشل ورکر نے حیران ہو کر پوچھا کہ دو برس بعد ہی علیحدگی ہو گئی تھی تو چھے بچے کیسے ہوئے؟ خاتون نے لجاتے ہوئے بتایا "وہ نادم ہو کر بار بار معافی مانگنے بھی تو آ جاتا ہے۔

تو بھئی گلے شکوے، ناراضگیاں، معافیاں اور راتوں کو خفیہ ملاقاتیں کرنے والی کہانی اب ختم ہوگئی وہ ایک پیج صرف پھٹا نہیں بلکہ جل کر راک ہوگیا ہے،آج کی پریس کانفرنس کے بعد ادارے اور لاڈلے میں کنفرم طلاق ہوگئی ہے۔

اس پریس کانفرنس سے ایک بات ثابت ہوگئی کہ اگلا آرمی چیف عمران خان کی مرضی سے بالکل نہیں آئے گا بلکہ آنے والا چیف عمران خان کو ٹف ٹائم دینے والا ہے مطلب پاکستان تحریک انصاف کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگی

جبکہ کل کی پریس کانفرنس فیصل واڈا کی اگر دیکھیں تو اس میں بھی ایک چیز واڑا نے بڑی کھل کے بتائی کہ یہ ماضی کی طرح ناچ گانے والا نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ انٹرٹیننگ اور پرجوش ہوگا، بڑا ہلہ گلہ اور موج مستی ہونے والی ہے۔

آج عمران خان کی ٹویٹر سپیس پر جانک کہ دیکھا تو دیکھا عمران خان پارٹی ورکرز کو بھاشن دے رہا تھا جبکہ وہاں سوال کے بجائے خان کے قصیدے گائیں جارہیں تھے۔ عجب بات یہ تھی کہ شروع سے آخر تک اس سپیس میں حاضرین کی تعداد بیس ہزار سے زیادہ نہیں بڑھی۔

بیس ہزار لوگوں کا کسی ٹویٹر سپیس میں ہونا ایک بڑی بات ہے مگر عمران خان جو پہلے کبھی اگر ٹویٹر پہ آتے تو لاکھ ڈیڑھ کا ریکارڈ توڑنا عام تھا۔ میرے خیال سے لوگوں کی غیر موجودگی کی وجہ شاید آج کی پریس کانفرنس کا ہی نتیجہ ہو

آج کی دوسری اہم خبر پاکستان کا زمبابوے سے کرکٹ میچ ہار جانا ہے۔
بات کریں آج ایک دوسرے افسوسناک واقعے کی وہ یہ کہ ایک ستر سالہ صحافی کو 20 سالہ پرانے کیس میں لاہور سے گرفتار کردیا گیا صحافیوں کے خلاف تشدد بند ہونا چاہیے چاہے جھوٹے مقدمات میں ان کی گرفتاری نہیں ہونی چاہیے، یہ اصول تمام صحافیوں کے لیے ہیں، خواہ وہ کسی بھی پارٹی کی حمایت یا مخالفت ہو یا نیوٹرل ہو

Written by 

ملٹی میڈیا صحافی اور بلاگر عمرفاروق، اگاہی وی لاگ کے علاوہ بین القوامی ادارے وائس آف امریکہ کی اردو سروس کے ساتھ بھی منسلک ہیں، وہ خیبرپختونخوا اور اس کے ساتھ ملحقہ قبائلی اضلاع سے رپورٹنگ کرتے ہیں، صحافت اور تعلقات عامہ میں پشاور یونیورسٹی سے ماسٹر کرنے کے بعد وہ جرمن ادارے جی آئی زیڈ کے پروگرام "انڈیپنڈنٹ پراجیکٹ رپورٹنگ" کے ساتھ منسلک رہے جہاں پر قبائلی اضلاع سے رپورٹنگ کی۔ علاقائی انگریزی اخبار "نارتھ ویسٹ فرنٹیئر" کے علاوہ آن لائن ٹیلی ویژن "ماٹی ٹی وی" سے خواتین اور ثقافی ہم اہنگی پر کام کیا۔ صحافتی تجربے کے علاوہ عمرفاروق عبدالولی خان یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں ویزیٹنگ لیکچرر بھی رہ چکے ہیں جہاں وہ طلباء کو نیوز میڈیا پروڈکشن سکھاتے رہے ہیں۔ صحافت برائے امن اور ترقی میں وسیع تجربہ کے علاوہ جنگ زدہ علاقوں میں کام کرنے والے صحافیوں کے تربیتی پروگرام کا حصہ رہ چکے ہیں جبکہ علاوہ ملکی سطح پر صحافیوں کے حفاظت و تربیت کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔