کرونا اورغریبوں کا شہر

میں سارا دن احتیاط کے وظائف سُنتا ہوں۔ اور یقیناً ان پہ عمل بھی کرتا ہوں۔ گھر سے نہیں نکلتے۔ ہاتھ دھو دھو کے ہاتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
گھر سے سودا لینے تب نکلتے ہیں جب اون لائن ہوم ڈیلیوری نہ ہو پائے۔ سانس لیتے ہوئے بھی احتیاط کرتے ہیں کہ کُچھ غلط نہ ہو جائے۔

یہ تو ہوئی ھماری دُنیا۔ مڈل کلاس، بھر پیٹ دُنیا جس کو غُربت کے مارے ملک میں ایک سستے سے لنچ کی قیمت میں ایک پورے مہینے کا مزدور مل جاتا ہے جو گالی کھا کے بھی دُعا دیتا ہے۔ بچا کھاتا ہے، سُوکھی روٹی لے جا کر بیچ کر دوائی خریدتا ہے، اُترن پہن کر اِتراتا ہے کہ صاحب (بیگم صاحب، چھوٹے صاحب) کم تر چیز کب پہنتے ہیں۔ گھر کے دوسرے لوگ اُس اترن کو چھو کر دیکھتے ہیں اور حسرت کی آہ بھرتے ہیں۔ کُچھ نوجوان سفارش بھی کر دیتے ہیں کہ اگر اگلی دفعہ ھمارے ناپ کی اُترن ملے تو ذرا لے آنا۔ بہن کی شادی پہ پہن لیں گے، یا دوست کے ولیمے پہ۔

یہ ہے دوسری دُنیا۔ غریبوں کا شہر!

آج میں گھر سے باہر نکلا کہ کُچھ سامان ہی خرید لاؤں۔ بس ایک امام ضامن نہیں بندھا، باقی ساری دعاؤں کے ساتھ رُخصت ہوا۔ باہر کھڑے سیکیورٹی گارڈ سے پوچھا کہ کیا سوسائٹی میں ملازموں کو آنے دیتے ہیں؟ اُس نے کہا کسی کو نہیں صاحب۔ بس سوسائٹی کے اپنے مالی آتے ہیں اور انہیں کسی گھر میں کام کرنے کی اجازت نہیں۔

یہ کہنے کے بعد اس نے کہا کہ صاحب ھم تو آپ کے نوکر ہیں ھمیں تو جو حُکم ہو وہ کریں گے۔ مجھے اُس وقت لگا کہ میں اور سیکیورٹی گارڈ نہیں بلکہ امیروں اورغریبوں کا شہر بات کر رہے ہیں۔ شرم آئی اپنے ہونے پہ کہ کسی کو مجھ سے بات کرتے ہوئے اپنی عزتِ نفس قُربان کرنی پڑی کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ اُس کی کوئی بات مُجھ پر گراں گُزرے اور خدانخواستہ اس کی نوکری جائے۔

اس بیچارے کو کرونا کی فکر نہیں۔ اس کو سب پتہ ہے مگر اُس کے بچوں کی بھوکی آنکھیں اُسے ایک نکما ماسک پہن کہ ہر آتے جاتے صاحب کو سلام کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔

بالکل اُسی طرح جیسے شاپنگ مال کی لفٹ کے باہر کھڑا گارڈ لپک کر سینیٹائزر آپ کے سامنے کرتا ہے اس احتیاط کے ساتھ کہ اُس کا ہاتھ آپ کے ہاتھ سے چُھو نہ جائے۔ وہ کبھی نہیں سوچتا کہ عین ممکن ہے کہ آپ کو اُس سے نہیں بلکہ اُسے آپ سے خطرہ ہو۔

بس یہاں آ کے مُجھے اپنے سے گھِن آتی ہے۔ یہ وائرس تو گُزر جائے گا۔ پتہ نہیں غریب زیادہ مریں گے کہ امیر۔ مگر ایک بات طے ہے، امیروں کی موت سرکار کا قصور ہوگی اور غریبوں کی اُن کے اپنے اُجڈ اور گنوار پن کا۔

ھم جہاں جی رہے ہیں مر مر کے
بزمِِ ہستی ہے، لوگ کہتے ہیں!
غمِ ہستی خریدنے والو
موت سستی ہے لوگ کہتے ہیں!

رائٹر ڈاکٹر الطاف اللہ خان فارمن کرسچن کالج لاہور کے شعبہ صحافت میں پروفیسر ہیں

Written by