خدا نے انسان کو اولاد ایک ایسی چیز دی جس سے محبت ہی کی بنیاد پر اس کی زندگی کی عمارت قائم ہوتی ہے جس کی اولاد نہ ہو وہ اس کے لئے در در منتیں مانتا پھرتا ہے اور علاج کراتا ہے اس اولاد کا پیٹ بھرنے اوراس کو ایک اچھی زندگی دینے کے لئے وہ ہر ٹھیک اور غلط کام کرتا ہے لیکن جب کوئی اس اولاد کو اپنی کسی خواہش کی تکمیل کے لئے ماردے تو یہ انسان جیتے جی مرجاتا ہے نوشہرہ کی پانچ سالہ سیما کو جنسی تشدد کا نشانہ بناکرمارا گیا اس کے بدقسمت والدین بھی اس بات پر کسی حد تک مطمئن تھے کہ قاتل گرفتار ہوچکا لیکن وہ اپنی بچی کے لئے انصاف کے منتظر ہیں۔
سیما کے والد عمران خان جو ایک دھاڑی مزدور ہیں کہتے ہیں کہ وہ اور ان کے اہل خانہ سخت پریشانیوں سے دوچار ہیں ایک طرف وہ مری ہوئی بچی کو رورہے ہیں تو ساتھ ہی انہیں روزانہ کورٹ کچہری بھی بلایا جاتا ہے وہ شکوہ کناں ہیں کہ جب کیس ثابت ہوچکا ہے ملزم گرفتار ہیں تو پھر انہیں روزانہ کچہری میں بلانے کا کیا جواز ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پانچ چھ مہینے سے لاک ڈاؤن تھا اس کے گھر میں فاقے چل رہے تھے اب اگروہ اس طرح تاریخوں پر آتے جاتے رہیں گے تو گھر کیسے چلے گا۔
خیبر پختونخواہ میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ 2010 سے نافذالعمل ہے جس میں ان بچوں کے خلاف جنسی اور جسمانی زیادتی، اغوا اور جرائم میں سزاؤں کے حوالے سے تفصیلات موجود ہیں۔ اسی قانون کے تحت خیبر پختونخوا میں چائلڈ پروٹیکشن یونٹس کے قیام کا عمل میں لایا گیا۔ تاکہ بچوں کے خلاف تشدد کی روک تھام اور انصاف کی فراہمی میں مدد دی جا سکے۔
چائلڈ رائٹس ایکٹیویسٹ عمران ٹکر ان یونٹس کی اہمیت بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ کسی بھی بچے کے کیس کا تعلق اگر پولیس سے ہو گا تو یہ یونٹس ان کا رابطہ پولیس سے کرنے میں مدد کریں گے اور اگر ان کے کیس کا تعلق عدلیہ سے ہو تو ان کا کیس عدالت کوبھیج میں بچے کے خاندان کی مدد کریں گے
ان یونٹس کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے یونیسیف نے 2011 میں خیبرپختونخوا کے 12 اضلاع میں چائلڈ پروٹیکشن یونٹس قائم کئے جو دو ہزار اٹھارہ تک کام کرتے رہے مگر اس کے بعد سے یعنی دسمبر 2018 سے جب یہ یونٹس صوبائی حکومت کے حوالے کئے گئے تو یہ تب سے بند ہیں۔ جون 2019 میں یونٹس کی دوبارہ بحالی کے لئے صوبائی بجٹ میں فنڈ مختص کیے گے لیکن 15 ماہ گزرنے کے باوجود بھی یہ فعال نہیں ہوسکے۔
ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر حبیب الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ چائلد ویلفیئر یونٹس کی بحالی کی کوشش کر رہا ہے ان کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ بہت پیچیدہ معاملہ ہے اس لئے یہ کچھ مزید وقت لگے گا کیونکہ ہمارے پاس اتنے مالی وسائل نہیں لیکن پھر بھی ہم ان ساری چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے انتظامی محکمہ کے شکایت جمع کروائی ہوئی ہے” ان کا کہنا تھا کہ جیسے ہی یہ متعلقہ فورم سے منظور ہوتی ہے تو یہ مسئلے مسائل حل ہونگے، اورجونہی درکار فنڈز مختص ہونگے ہم اس کو استعمال کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔
خیبر پختونخوا چائلڈ کیئرکمیشن کے مطابق گزشتہ 10 سالوں کے دوران 30 ہزار سے زائد بچوں کے خلاف مختلف قسم کے تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جبکہ غیر سرکاری تنظیم ساحل کے مطابق رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں اب تک پورے پاکستان میں 14 سو سے زائد بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے کارکن کہتے ہیں کہ ان حالات میں چائلڈ پروٹیکشن یونٹس کے قیام کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ ایک ایسا فورم ہے جو متاثرہ خاندان اور بچے کو فوری طور پر مدد فراہم کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔
سول سوسائٹی نیٹ ورک کے کوآرڈی نیٹر تیمور کمال سے جب بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ یونٹس اضلاع میں بحال ہوتے ہیں تو لوگوں تک انصاف کی رسائی آسان ہوجاتی ہے کیونکہ صوبے میں قائم واحد دفتر کسی بھی طرح پورے صوبے کے لوگوں کی شکایات کو نہیں نمٹا سکتا اور لوگوں کو بھی اس ایک دفتر تک اپنی شکایات پہنچانا آسان نہیں ہوتا۔
سماجی کارکن چاند بی بی کا کہنا ہے کہ صرف دو بین الاقوامی ادارے یونیسف اور سیو دی چلڈرن ہی چائلڈ پروٹیکشن پر کام کر رہے ہیں جن کو اس کے لئے فنڈ ملتے ہیں۔ لیکن یونیسف اب یہاں پر اس کے لئے کام نہیں کررہا۔
پانچ سالہ سیما کے ساتھ جنسی زیادتی اور اسے قتل کرنے کے الزام میں اس کے ہمسایے کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جبکہ ملزم کے والدین نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے نیٹے کی عمر 16 سال ہے اور اس وہ اس کا کیس بچوں کی عدالت میں لے جانے کی کوشش کررہے ہیں، تاہم سیما کے والد عمران اس بات کو مانے سے انکاری ہیں اور وہ ملزم کو پھانسی دینے کا مطالبہ کررہے ہیں، عمران کا کہنا ہے کہ وہ انصاف کے لئے پرامید تو ہیں مگر قانونی تقاضوں اور انصاف کے پیچیدہ نظام سے پریشان بھی ہیں اور جلد انصاف چاہتے ہیں۔