انفارمیشن پینل کی غیر موجودگی، حساس کیسز پنڈنگ کی تعداد 1500 تک پہنچ گیا. رپورٹ
پاکستان میں معلومات تک رسائی کے قوانین پر تقابلی جائزے کا مطالعہ پبلک کر دیا گیا. خیبرپختونخوا میں انفارمیشن کمیشن کو درپیش چیلنجز حل کرنے کی ضرورت ہے. ماہرین پاکستان میں معلومات تک رسائی قوانین کا تقابلی جائزہ کے موضوع پر کی گئی مطالعاتی ڈاکومنٹ بدھ کے روز ایک تقریب کے دوران پشاور میں پبلک کر دی گئی. سنٹر فار گورننس اینڈ پبلک اکاونٹبلٹی کی جانب سے منعقدہ تقریب میں چیف انفارمیشن کمشنر خیبرپختونخوا فرح حامد خان سمیت سابقہ انفارمیشن کمیشن سربراہان اور دیگر متعلقہ افراد نے شرکت کی. تقابلی جائزہ میں معلومات تک رسائی کے قوانین کے 27 اجزاء کا مطالعہ کیا گیا. تقابلی جائزے کے چیدہ چیدہ نکات پر بات کرتے ہوئے سنٹر فار گورننس اینڈ پبلک اکاونٹبلٹی کے سربراہ محمد انور نے کہا کہ پاکستان میں رائج معلومات تک رسائی کے قوانین کے حوالے سے کئے گئے مطالعے میں قانون کے مختلف حصوں کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے جس میں تقابلی طور پر بہترین طریقہ کار اور درپیش چیلنجز کی نشاندھی کی گئی ہے. انہوں نے کہا کہ پاکستان کے تمام یونٹس میں معلومات تک رسائی قانون کا قانون رائج ہے لیکن آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں مذکورہ قانون کو ابھی تک لاگو نہیں کیا گیا ہے لیکن پاکستان میں موجود معلومات تک رسائی قانون نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں اس کو رائج کرنے کی راہ ہموار کر دی ہے. سنٹر فار گورننس اینڈ پبلک اکاونٹبلٹی کے سربراہ محمد انور نے تقابلی جائزہ کی بنیاد پر سفارشات پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں انفارمیشن کمیشن کا قیام عمل میں لانا چاہئیے جبکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی معلومات تک رسائی کے قانون کو لاگو کرنا چائیے. انہوں نے مزید آگاہ کیا کہ خیبرپختونخوا میں انفارمیشن کمشنرز کی تقرریاں عمل میں لانا چاہئیے. بلوچستان اور سندھ میں موجود قانون میں ترامیم وقت کی ضرورت ہے. تقابلی جائزے کے مزید سفارشات میں بتایا گیا کہ وفاقی سطح پر موجود معلومات تک رسائی قانون میں پارلیمنٹ کو استثنیٰ دینے کی کوشش نہیں ہونی چاہیے. مزید یہ کہ متعلقہ حکومتوں کو چاہیے کہ پبلک اداروں کو معلومات ڈیجیٹائز کرنے میں تعاون فراہم کریں. تقابلی جائزہ سٹڈی پر پینل بحث میں معلومات تک رسائی قانون کے ماہرین نے تقریب کے شرکاء کے ساتھ اپنے تاثرات شریک کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا میں جب معلومات تک رسائی قانون کو آرڈیننس کی حیثیت حاصل تھی تب تک یہ بہترین تھا لیکن اب خیبرپختونخوا انفارمیشن کمیشن درپیش چیلنجز کی وجہ سے کئی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے. ماہرین نے بتایا کہ خیبرپختونخوا انفارمیشن کمیشن میں خالی اہم پوزیشنز پر تقرریاں ہونی چاہیے تاکہ عوام تک اس قانون کے فوائد فوری پر پہنچ سکیں. پبلک باڈیز میں پبلک انفارمیشن آفیسر کی حیثیت کو تقویت دینے کے لیے بھی عملی اقدام اٹھانا چاہیے. تقریب کے شرکاء نے خیبرپختونخوا رائٹ ٹو انفارمیشن کے متعلق سوالات پوچھے اور مزید بہتری کے لیے تجاویز بھی پیش کئے گئے. تقریب کی مہمان خصوصی چیف انفارمیشن کمشنر خیبرپختونخوا فرح حامد خان نے تقابلی جائزے پر تاثرات شریک کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا انفارمیشن کمیشن درپیش چیلنجز کے باوجود بھی خدمات کی فراہمی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، گزشتہ سال کمیشن کو تقریباً 2855 درخواستیں موصول ہوئیں جس میں 1664 کو نمٹا دیا گیا جبکہ دیگر پر کام جاری ہے. انہوں نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ ہمارے قانون میں نہیں ہے لیکن ضلعی سطح پر موجود عدلیہ بھی معلومات تک رسائی کی مد میں تعاون سے کتراتے ہیں. انہوں نے کہا عوام میں آگہی کے حوالے سے ہر فورم پر کام کر رہے ہیں جبکہ پبلک باڈیز کے سربراہان میں معلومات تک رسائی کے حوالے سے متحرک کرنے پر کام ہو چکا ہے. چیف کمشنر فرح حامد نے مزید کہا کہ درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں. ہماری جانب سے انفارمیشن کمشنرز پینل کے لیے نام محکمہ اطلاعات خیبرپختونخوا کو بھجوائے گئے ہیں. انہوں نے کہا کہ انفارمیشن کمیشن پینل کی غیر موجودگی کی وجہ سے حساس کیسز کی تعداد 1500 تک پہنچ گئے ہیں جو قابل تشویش ہیں.