مشہور کہاوت کے مطابق ہاتھی کے دانت کھانے کے اور، اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔ کچھ ایسا ہے سلسلہ خیبر پختو نخواہ کے شہر کوہاٹ میں بھی گزشتہ کچھ مہینوں سے دیکھنے میں آرہا ہے۔ کہنے کو تو کوہاٹ، کرک اور ہنگو ایسے علاقے ہیں جو کے سوئی گیس کا گڑھ مانے جاتے ہیں، انہیں شہروں کے ذخائر سے ملک کے مختلف شہروں کو سوئی گیس فراہم کی جاتی ہے مگر تعجب کی بات یہ ہے کہ کوہاٹ کے مکین ہی سوئی گیس سے محروم ہیں۔ ضلع کوہاٹ سوئی گیس فراہم کرنے میں ایک عرصے سے پیش پیش ہے، مگر کوہاٹ کے ہی شہریوں کو گھریلو استعمال کے لیے سوئی گیس مہیا نہیں کی جاتی جس کے نتیجے میں انہیں ایل-پی-جی کے سیلنڈروں کے مہینگے دام ادا کرنے پڑتے ہیں تاکہ گھر کا چولہا بجھنے نا پائے۔
تازہ تحقیقات کے مطابق کوہا ٹ کے علاقے شیرخاں کے ساتھ ساتھ انڈس ہائی وے پے نئے گیس کے ذخائر دریافت کیے گئے ہیں جس کے باوجود کوہاٹ کی عوام کو ٹھیک ٹھاک پریشان کررکھا ہے۔ صرف کوہاٹ چھاونی کی ہی اگر بات کی جائے تو کرونا کی آمد اپنے ساتھ گیس کا رونا لے کر آئی تھی۔ گزشتہ 8 ماہ سے مسئلہ بڑھتے بڑھتے اب انتہائی سنگین ہوچکا ہے، گھروں میں چولہے بند اور گیس ہیٹرز بکسوں کی ذنیت بنے ہوئے ہیں۔ ایل-پی-جی کی قیمتوں سے پریشان حال عوام تندوروں کا رخ بھی کرے تو کیسے؟ حکمرانوں نے تو اس قابل بھی نہیں چھوڑا۔ اس کے برعکس انتظامیہ کو دیکھیں تو وہ اس مسئلے پر بات کرنے کیلئے عمادا ہی نہیں۔ اسرار کرنے پر درخواستیں موصول ضرور کرلیں جاتیں ہیں جس کے بات تاریخ پے تاریخ دے چولہوں کے ساتھ ساتھ منہ بھی بند کروا لیے جاتے ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اخر گیس جا کہاں رہی ہے؟ رمضان اور موسم سرما میں تو کسی نا کسی طرح لوگوں نے گزارا کر ہی لیا تھا مگر اب پورا سال ایسا کیسے چلے گا؟ ان تمام گیس کے ذخائر سے آیا فائدہ اٹھایا نہیں جارہا یا پھر معاملعہ کچھ اور ہے؟ آیا یہ مسائل جو کہ ہر شہری کی بنیادی ضرورتیں ہیں کبھی انہیں ملیں گے بھی یا نہیں؟