میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی شائع کردہ نئی ریسرچ کے مطابق پاکستانی خواتین صحافیوں نے آن لائن تشدد جس میں ہراساں کرنا ، ٹرولنگ اور آن لائن بدسلوکی کی منظم مہم جوئی کو ایسے عوامل کے طور پر شناخت کیا ہے جو کہ ان کے کام اور آن لائن ذاتی اظہار کو محدود کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
Women Journalists and Double Bind کے عنوان
سے شائع کردہ اس ریسرچ میں حصہ لینے والی ہر دس میں سے نو خواتین صحافیوں کے مطابق اگر وہ اپنے خیالات کے آن لائن اظہار میں سینسر شپ اختیار نہ کریں تو اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ انہیں آن لائن تشدد کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ریسرچ میں شامل تقریبا 70 فیصد شرکا نے 2020 میں اپنے صحافیانہ کام اور آن لائن ذاتی اظہار کی وجہ سے کسی نہ کسی خطرے ، آن لائن حملے اور ہراسمنٹ کا سامنا کیا۔ 2018 میں یہی شرح 60 فیصد تھی۔
میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی یہ ریسرچ 2018 میں شائع کردہ ریسرچ کا تسلسل ہے ۔ 2020 میں پاکستانی خواتین صحافیوں نے ان پر ہونے والے آن لائن حملوں اور ہراسمنٹ اور ان میں حصہ لینے والے مختلف سیاسی پارٹیوں کے کارکنان کے بارے میں دو مشترکہ بیانات بھی جاری کئے تھے۔
حالیہ ریسرچ میں خواتین صحافیوں نے سوشل میڈیا کے بطور سیاسی ہتھیار کے استعمال اور مختلف سیاسی جماعتوں کے جانب سے ان صحافیوں کام اور کردار کے خلاف کے ہونے والی منظم مہمات کی متعلق بات کی ہے۔ ان صحافیوں کے مطابق ان آن لائن دھمکیوں میں ریپ کئے جانے اور جان سے مار دئیے جانے کی دھمکیاں بھی شامل ہیں جو کہ نہ صرف ان کے جسمانی اور ذہنی تحفظ کے لیے خطرے کی بات ہی۔ بلکہ ان کے لیے اپنے کام کے لیے معلومات کے ذرائع تک پہنچنے میں بھی ایک بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔
ریسرچ کے لیے کئے جانے والے سروے میں شامل تقریبا 80 فیصد خواتین صحافیوں کے مطابق پچھلے۔ تین سالوں میں سیلف سینسر شپ میں اضافہ ہوا ہے۔ اور تقریبا اتنی فیصد خواتین صحافی یہ بھی سمجھتی ہیں کہ سیلف سیسنرشپ کئے بغیر پاکستان میں صحافت ممکن نہیں ہے۔
2020 کی ریسرچ کے مطابق وہ خواتین صحافی جنہوں نے آن لائن خطرات کی وجہ سے اپنے کام کو روکا جا محدود کیا ان کی شرح 90 فیصد رہی۔ یہی شرح 2018 میں 87 فیصد تھی۔
خواتین صحافیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے مطابق وہ آن لائن اپنے ذاتی خیالات کے اظہار میں بہت احتیاط برتتی ہیں ۔ 93 فیصد خواتین صحافیوں کے مطابق انہوں نے اپنے آن لائن اپنے ذاتی خیالات کے ا ظہار میں خود پر قدغنیں لگائیں۔ 2018 میں کی جانے والی ریسرچ کے مطابق یہ شرح 83 فیصد تھی۔
بہت ساری خواتین صحافی جنہوں نے اس ریسرچ میں حصہ لیا کے مطابق انہوں نے اس سیلف سینسر شپ کے اثر کو گھٹانے کے لیے وہ معلومات دوسرے صحافیوں کے ساتھ شیئر کیں تاکہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے لوگوں تک ضرور پہنچیں۔ ریسرچ میں شامل 65فیصد خواتین صحافیوں کے مطابق ڈیجیٹل سیفٹی کے مختلف ذریعوں کے متعلق آگاہی ان کے لیے سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کے بہتر اظہار کا باعث بن سکتی ہے۔
اس ریسرچ نے حکومت ،سیاسی جماعتوں اور صحافتی یونینز کے لیے بہت ساری سفارشات بھی مرتب کی ہیں۔ ریسرچ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ حکومت اور سیاسی جماعتیں صحافیوں کے تحفظ بشمول سائبر سپیس میں تحفظ کو قانونی شکل دے اور فوری طور پر ایسے حکومتی اور سیاسی کرداروں کے خلاف تفتیش کا آغاز کرے جن پر خواتین صحافیوں کے خلاف آن لائن ہراساں کرنے یا اس پر اکسانے کے الزامات ہیں۔
اس ریسرچ نے اس چیز کی بھی سفارش کی ہے کہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کو خواتین صحافیوں کی سپیشل نیشنل ٹاسک فورس بنانے میں مدد فراہم کرنی چاہیے۔ اور یہ ٹاسک فورس خواتین صحافیوں کی جانب سے اگست اور ستمبر میں شائع کردہ مشترکہ بیانات اور مطالبات پر حکومت اور سیاسی جماعتوں سے فالو اپ کر سکتی ہے۔ ریسرچ نے اس بات کی بھی سفارش کی ہے کہ میڈیا ڈویلپمنٹ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو خواتین صحافیوں کے لیے ڈیجیٹل سیکورٹی ٹریننگز کا اہتمام کرنا چاہیے اور ایک ایسا بہاہمی تعاون پر مبنی نیوز رپورٹنگ میکنزم بنانے چاہیے جو کہ سیلف سیینسر شپ کے پریشر سے بچنے میں مددگار ثابت ہو سکے
خواتین صحافیوں کے خلاف منظم مہم
